اوسلو (خصوصی رپورٹ)۔
ناروے میں مقیم اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان ملک میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرے۔
یہ بات گذشتہ روز دارالحکومت اوسلو میں مقیم شیعہ علماء کے ایک وفد کی اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے پاکستانی نژاد علماء سے ملاقات کے دوران کہی گئی۔
شیعہ علماء کے وفد میں انجمن حسینی ناروے کے دینی امور ڈائریکٹر علامہ ڈاکٹر سید زوار حسین نقوی، مولانا سید قاسم علی کاظمی، علامہ سید مصطفیٰ مطہری اور علامہ معدلی شامل تھے۔
اسلامک کلچرل سنٹر سے وابستہ علماء میں پاکستانی نژاد بزرگ عالم دین مولانا محبوب الرحمان، اسلامک کلچرل سنٹر کے نئے امام مولانا سلیم اللہ علوی، سابق امام و ممتاز عالم دین مولانا ڈاکٹر حامد فاروق، ممتاز دینی سکالرز مولانا سید فضل ہادی اور مولانا محمد اسجد شامل تھے۔
ملاقات کے دوران پاکستان میں حالیہ دنوں فرقہ وارانہ تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجانات پر سخت تشویش ظاہر کی گئی اور کہاگیا کہ فرقہ واریت ملک و قوم کی وحدت و یکجہتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ملاقات میں شیعہ علماء کی طرف سے اسلامک کلچرل سنٹر کے نئے امام مولانا سلیم اللہ علوی کا بھی خیرمقدم کیا گیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا۔
اس موقع پر پاکستان میں اہل بیت اطہار (ع) اور صحابہ کرام (رض) کی توہین کی بھی مذمت کی گئی اور واضح کیا گیا کہ کسی ایک فرد کی اس طرح کی توہین آمیز حرکات سے کسی مسلک یا مذہب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس طرح کی اہانت آمیز حرکات اور گستاخانہ بیانات کا دین اسلام اور کسی اسلامی مسلک سے کوئی تعلق نہیں، وہ اس فرد کا ذاتی اور قابل مذمت فعل ہے۔ پاکستان میں اسلامی مسالک اور مذاہب کی تکفیر کی بھی مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ حکومت تکفریت کی سنجیدگی سے روک تھام کرے۔
ملاقات میں اہل تشیع علماء نے ایک نام و نہاد ذاکر کی طرف سے حالیہ محرم الحرام کے دوران اسلام آباد میں اشتعال انگیز تقریر کی بھی مذمت کی جس کی وجہ سے پاکستان میں غم و غصہ پھیل گیا اور بعض عناصر کو تشدد کو بھڑکانے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے کہاکہ ایسے عناصر کا مکتب تشیع سے کوئی تعلق نہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دیگر مسالک کے مسلمانوں کے مقدسات اور خاص طور پر اصحاب رسول اکرم (ص) کی توہین کرتے ہیں۔
اسلامک کلچرل سنٹر کے علماء نے ان عناصر کی بھی مذمت کی جو فرقہ واریت کی آڑ میں اہل تشیع کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں اور دیگر مسالک کو ان کے خلاف ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ سنی و شیعہ فسادات ہرگز اسلام اور پاکستان کے مفاد نہیں۔
ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سنی و شیعہ متحد ہوکر پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کریں اور کسی بھی فرد کو اجازت نہ دیں کہ وہ فرقہ بندی، فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے کر ملک و قوم کے اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالے۔
دراین اثناء، ناروے میں پاکستانی نژاد نارویجن مسلمانوں کے تین دینی مراکز توحید اسلامک سنٹر، انجمن حسینی اور مرکز محبان اہل بیت ناروے نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں شیعہ مسلک کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کریں۔ خط میں بعض عناصر کی طرف سے اہل بیت رسول اکرم (ص) و صحابہ کرام (رض) کی توہین اور تکفریت کے بڑھتے ہوئے رحجانات کی بھی مذمت کی گئی۔